کابل،30مئی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)افغان طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے دھڑے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تاہم اس کی شرط ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ اور تمام غیر ملکی افواج کا انخلاء ہے۔مشرقی افغانستان میں قریب 200 حامیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے ملا عبدالمنان نیازی کا کہنا تھا کہ اُن کے دھڑے کا افغان حکومت پر سے اعتماد مکمل طور پر اُٹھ چُکا ہے۔ اس اجلاس میں خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس کا ایک فوٹوگرافر بھی موجود تھا۔نیازی منحرف دھڑے کے سربراہ ملا محمد رسول کا نائب ہے۔ رسول گذشتہ موسم گرما میں افغان طالبان سے علیحدہ ہوا تھا۔ اس وقت طالبان نے ہلاک ہونے والے گروپ کے بانی ملا عُمر کے جانشین کے طور پر ملا اختر منصور کو منتخب کر لیا تھا۔ منصور گزشتہ ہفتے ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔طالبان کے اس دھڑے کے سینیئر رہنما عبدالمنان نیازی نے اپنے بیان میں کہا کہ اُن کا گروپ کابل کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہے تاہم اس کی کچھ لازمی شرائط ہوں گی۔ ان شرائط میں افغانستان میں شرعی قوانین کے نفاذ اور ملک سے تمام غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء شامل ہے۔اُدھر افغان طالبان کے مرکزی گروپ نے بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر رضامندی کی یہی شرائط رکھی ہیں تاہم اس گروپ کا مطالبہ یہ ہے کہ یہ شرائط پہلے پوری کی جائیں اُس کے بعد مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔یاد رہے کہ ملا منصور نے افغان صدر اشرف غنی کے ایماء پر ہونے والے چہار فریقی مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ ان مذاکرات میں افغانستان کے علاوہ پاکستان، امریکا اور چین شامل تھے۔ اس چار فریقی گروپ کے نمائندے بات چیت کی غرض سے پانچ ملاقاتیں کر چُکے ہیں تاہم ان میں افغان طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ان ممالک کی کوشش ہے کہ افغانستان کی 15 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے افغان حکومت اور طالبان باغیوں کے مابین بات چیت کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا جائے۔طالبان کے مرکزی گروپ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پہلے ہی علیحدہ ہونے والے دھڑے کو ملا محمد رسول کا گروپ قرار دے چُکے ہیں۔ اتوار کو خبر رساں ایجنسی اے پی کو بیان دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا،ملا رسول کو کابل اور واشنگٹن کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے ملا رسول کے دھڑے کو طالبان کی شکل میں پائی جانے والی حکومتی فوج قرار دیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا،ہمارے لیے ملا رسول ایک مقامی پولیس اہل کار اور افغان خفیہ سروسز کی ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔